Aiza Khan

Add To collaction

روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں

روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں
اشک بچوں کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں

سبز پیڑوں کو پتہ تک نہیں چلتا شاید
زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں

اس گزر گاہ محبت میں کہاں آ گیا میں
دوست چپ چاپ برابر سے نکل جاتے ہیں

تم تراشے ہوئے بت ہو کسی محراب کے بیچ
ہم زوائد ہیں جو پتھر سے نکل جاتے ہیں

ساحلی ریت میں کیا ایسی کشش ہے کہ گہر
سیپ میں بند سمندر سے نکل جاتے ہیں

میں ترے ہجر سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
ہائے وہ لوگ جو محور سے نکل جاتے ہیں

آخرش صبح قیامت کی اذاں آتی ہے
اور ہم شام کے لشکر سے نکل جاتے ہیں
توقیر تقی

   0
0 Comments